پنجاب کی دیش بھگت یونیور سٹی اس وقت وادی کشمیر میں خوب چرچے میں ہے۔کیوں کہ وہاں پر زیر تعلیم سینکڑوں نرسنگ طلباء نے یونیورسٹی پر دھوکہ دہی کا الزام لگایا ہے۔لیکن یہ معاملہ تب طول پکڑنے لگا جب 14 ستمبر کو یونیورسٹی گیٹ پر بیٹھے کشمیری نرسنگ کے طلباء وطالبات پر پنجاب پولیس نے لاٹھیاں برسائی جبکہ طالبات کیساتھ بدسلوکی بھی کی گئی۔اس دوران کئی طلباء زخمی بھی ہوئے جبکہ کچھ طالبات کی جانب سے پولیس پر سنگین الزامات بھی لگائے گئے۔اس معاملے پر وادی کشمیر کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی ردعمل سامنے آئے۔
آخر معاملہ کیا ہے؟
دراصل دیش بھگت یونیورسٹی میں زیر تعلیم سینکڑوں کشمیری طلبا و طالبات نرسنگ کر رہے ہیں اور ان میں زیادہ تر تعداد کشمیری طلباء کی ہی ہے۔اور وہ پچھلے تین ہفتوں سے اسلئے احتجاج کر رہے ہیں کیوں کہ انکے مطابق انڈین نرسنگ کونسل کی جانب سے دیش بھگت نرسنگ کالج کو60 نشستیں الاٹ کی گئی ہیں لیکن اسکے برعکس یہاں 140 کے قریب طلبہ کا داخلہ کرایا گیا یےاوراب ان میں سے 70 کشمیری طلبہ کوانکی مرضی کے خلاف دیش بھگت یونیورسٹی سے منسلک کالج سردار لال سنگھ کالج منتقل کیا گیا ہے۔ اور یہ سلسلہ گزشتہ سال سے جاری ہے جب سے لگ بھگ 500 کشمیری طلباء نے مختلف پیرامیڈیکل کورسز میں داخلہ لیاہیں۔تاہم طلبہ کے مطابق سردار لال سنگھ کالج کے پاس نہ انڈین نرسنگ کونسل اور نہ ہی پنجاب نرسنگ رجسٹریشن کونسل کی منظوری ہے۔جس کے باعث یونیورسٹی کی جانب سے پیسہ کمانے کی لالچ میں سینکڑوں کشمیری طلباء کے کریر کو داؤ پر لگا دیا گیا ہے۔یہ معاملہ دراصل 2020میں سامنے آیا جب طلبہ کی رجسٹریشن خفیہ طور دیش بھگت یونیورسٹی سے سردار لال سنگھ کالج منتقل کی گئی۔جب طلبہ نے انتظامیہ سے رجوع کیا تو جواب ملا کہ یہ غلطی سے ہوا ہے اسے درست کیا جائے گا۔تاہم اسکے بعد لڑکیوں اور لڑکوں کو الگ الگ کر کے لڑکیوں کو سردار لال سنگھ کالج بھیجا گیا جو کہ دیش بھگت یونیورسٹی سے منسلک ہے تب طلبہ کو بتایا گیا کہ کالج کی رجسٹریشن ہو رہی ہے لیکن تب سے دو سال گزر گئے لیکن رجسٹریشن کالج کی نہیں ہو پائی۔اسکے بعد ستمبر میں طلباء نے انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن انکی جانب سے انہیں کوئی جواب نہیں ملا اور پھر طلباء نے احتجاج پر جانے کا فیصلہ کیا۔یہ احتجاج 14 ستمبر کو ہی خبروں میں آیا جب اس نے کالج میں بھیانک رخ اختیار کیا۔اس روز گیٹ پر بیٹھے احتجاجی طلباء و طالبات کو ہٹانے کے لیے کالج انتظامیہ نے پولیس کو طلب کیا اور پھر پولیس نے طلباء پر لاٹھیاں برسائی جس دوران کئی طالبات کو اسپتال لے جانا پڑا جبکہ کئی طلبہ کوپولیس نے حراست میں بھی لے لیا۔ادھر کئی طالبات نے الزام لگایا کہ انکے حجاب پھاڑے گئے اور یہاں تک کہ اپنے سٹاف نے بھی انہیں مارا پیٹا۔ایک طالبہ نے لازام لگایا کہ ایک خاتون ڈی ایس پی نے پولیس کو لڑکیوں کے کپڑے پھاڑنے کو کہا۔وہیں اس دوران کئی ویڈیوز بھی سامنے آئے جن میں طالبات کو زدوکوب کیا جا رہا ہے۔
سیاسی جماعتوں کا ردعمل
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ محبوبہ مفتی نے احتجاج کرنے والی طالبات پر لاٹھی چارج کی مذمت کی۔سماجی رابطہ ویب سائٹ ایکس پر اپنا ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ "کشمیری طلبہ پر لاٹھی چارج اور یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کرنے پر لڑکیوں کے ساتھ بدسلوکی، جس نے ان کے مستقبل کو تباہ کر دیا ہے بالکل غیر ضروری ہے۔ بھگونت مان جی سے گزارش ہے کہ مہربانی کرکے اس معاملے کو دیکھیں۔ اس طرح کے اقدامات کشمیریوں کو اور بھی الگ کر دیتے ہیں۔“وہیں نیشنل کانفرنس کے ترجمان عمران نبی ڈار نے ایکس پوسٹ میں کہا کہ "قابل مذمت، میں بھگونت مان جی سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں۔ یہ کارروائیاں کشمیریوں کو مزید تنہا کرنے کا کام کرتی ہیں۔“انکے علاوہ اپنی پارٹی سربراہ الطاف بخاری اور کانگریس لیڈر غلام احمد میر نے بھی کشمیری طلباء پر لاٹھی چارج کی مذمت کی۔ وہیں جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن نے کشمیری طلبہ کی مدد کے لیے مرکزی وزیر صحت ڈاکٹر منسکھ منڈاویہ اور پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان کو مکتوب لکھا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ "کشمیری نرسنگ طلبہ گزشتہ دو ماہ سے یونیورسٹی انتظامیہ کے سردار لال سنگھ کالج میں اپنے داخلوں کی منتقلی کے "من مانی” فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جسے انڈین نرسنگ کونسل اور پنجاب نرسنگ رجسٹریشن کونسل سے منظوری حاصل نہیں ہے۔اس کے مزید کہا گیا ہے کہ”آج پرامن احتجاج کرتے ہوئے، طالبات کو لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا گیا اور اس غیر منصفانہ فیصلے کے خلاف اپنی آواز کو خاموش کرنے کے لیے یونیورسٹی کی عمارت کے اندر ہی قید کر دیا گیا۔“
پنجاب حکومت کی دیش بھگت یونیورسٹی سےہرایک کشمیری طالبعلم کو 10لاکھ معاوضہ دینے کی ہدایت
کشمیر میں دباؤ بڑھتا دیکھ پولیس نے یونیورسٹی کے مالک اور چانسلر ڈاکٹر زورہ سنگھ، انکی اہلیہ تجندر کور کے علاوہ دیگر کئی افراد کےخلاف طلبہ کو دھوکہ دینے، طالبات کو زدوکوب کرنے کے معاملے میں کیس درج کیاہے۔وہیں پنجاب حکومت کے محکمہ میڈیکل ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 15 اور 16 ستمبر کو محکمہ کی جانب سے کالج کا سروے کیا گیا اور اس دوران انہوں نے وہاں کالج کا انفراسٹرکچر ناقص ناکافی اور ناقص پایا۔رپورٹ میں کالج کو ہدایت کی گئی ہے کہ 2020اور 2021بیچ کے طلباء کی فہرست فراہم کرے اور آگے سے کوئی نرسنگ کا داخلہ نا کرے،وہیں موجودہ طلباء کو منتقل کیا جائے گا تاکہ انکا کیرئیر بچایا جا سکے ۔کالج کو یہ ہدایت بھی دی گئی کہ غیر قانونی طریقے سے داخلہ کیے گئے فی کس طالبعلم کو دس دس لاکھ بطور معاوضہ دیا جائے اور کسی دوسرے کالج میں داخلے کےلیے فیس بھی کالج کو بھرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔